اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، بیسویں صدی کے اوائل کے امریکی صدر تھیوڈور روزولٹ (Theodore Roosevelt [صدارت ۱۹۰۱-۱۹۰۹ع]) نے امریکی خارجہ پالیسی کا جوہر کچھ یوں متعین کیا ہے: “نرم زبان اور اسی اثناء میں لاٹھی ہاتھ میں لئے، بات کرنا”؛ لیکن مسٹر ٹرمپ کے زیر صدارت امریکہ میں گویا ایک ہی چیز بنیادی اہمیت رکھتی ہے: “چیخ چیخ کر بولنا”۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کو ایسا کرتے ہوئے کونسی قوت کی پشت پناہی حاصل ہے؟
ان دو نظریات کے فرق کو “اعتبار” نامی “مقولے” (Category) میں تلاش کرنا چاہئے۔ ایک صدی قبل امریکہ ایک بھاری بھرکم فوجی، سفارتی اور معاشی طاقت کا نام تھا۔ اسی بنا پر روزولٹ نے “نرمی کے ساتھ بولنے” کی تجویز دی تھی، کیونکہ ان کے پاس امریکی طاقت کی نمائش کے لئے تمام تر وسائل سے لیس تھے اور ان کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا۔
اس میں کسی کو کوئی شبہہ نہیں ہے کہ آج بھی امریکہ ایک بھاری بھرکم فوجی طاقت ہے لیکن جہاں تک معیشت دنیا بھر میں ایک طریقہ کار (Mechanism) کے طور پر ادائیگیوں میں ڈالر کی کردار کا تعلق ہے، تو شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک اپنے تسلط کا ایک بہت بڑا حصہ کھو چکا ہے۔
لگتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ چیخنے چلانے، نت نئے نعرے لگانے، غنڈہ گردانہ اور انتباہی انداز میں حد سے زیادہ بولنے کے ذریعے دوسروں کو امریکی آرزؤوں اور مطالبوں سے ہم آہنگ کرانے کی کوشش کررہے ہیں اور یوں امریکہ کی اس تنزلی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔
اس ہفتے دنیا امریکی بازار حصص (Stock Exchange) کی زبردست مندی کی شاہد تھی؛ اس مندی اور تنزلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معیشت کی ظاہری طاقت، ویسی نہیں ہے جیسے کہ تھی، اور ٹرمپ کے دور میں تو اس میں شگاف پڑ گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی بازار حصص کی تنزلی کا اہم سبب چین اور امریکہ کی معاشی جنگ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال ہے۔
کچھ عرصہ قبل روسی وفاق کے صدر ولادیمیر پیوتن نے امریکہ کی جانب سے دوسرے ممالک پر پابندیاں ٹھونسنے اور عالمی سطح پر ڈالر کا ـ بطور ایک حربہ اور ایک اوزار ـ حد سے زیادہ سہارا لینے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ امریکہ ڈالر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس کے وسیلے سے دوسرے ممالک کو سزا دیتا ہے تا کہ دنیا والے معاشی دباؤ میں آکر امریکی خواہشوں پر منطبق ہوجائیں؛ لیکن یہ ایک “تزویری غلطی” (Strategic blunder) ہے۔ صدر پیوٹن نے قومی توانائی کانفرنس میں کہا کہ “یہ وہی غلطی ہے جس سے بیمار اور رنجور اور کمزور سلطنتیں دوچار ہوجایا کرتی ہیں”۔
پیوٹن کے اس جملے کا مطلب یہ تھا کہ “امریکہ کا موجودہ طرز عمل ایک رو بہ زوال سلطنت کا سا طرز عمل ہے۔
بےشک امریکہ ـ جو اپنی طاقت رفتہ سے غیر مطمئن ہے ـ اپنی طاقت کے زوال کی تلافی کرنے کی غرض سے طاقت کے ظالمانہ استعمال میں مصروف ہے، لیکن اس طرز عمل سے زوال کا علاج تو ہوگا نہیں بلکہ اس کی رہی سہی ساکھ بھی زائل ہورہی ہے؛ اور یوں امریکہ دوسرے ممالک کو، واشنگٹن کے حد سے زیادہ دباؤ سے بچنے کے لئے، متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
سنہ ۱۹۷۰ع کی دہائی کے آغاز پر جب ڈالر کو بین الاقوامی مالیاتی معیار (Global financial standard) کے طور پر سونے کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا گیا، تو فرض یہ کیا گیا تھا امریکی زر مبادلہ بین الاقوامی تجارت میں خصوصی امتیازات کا حامل ہے، لیکن یہ امتیازی خصوصیت اس ذمہ داری کو بھی اپنے ساتھ لاتی ہے کہ یہ ملک دنیا والوں کے ساتھ ایک محترم، ذمہ دار اور معتبر بینکار کا سا سلوک روا رکھے، تا کہ یوں وہ ڈالر کو ایک عالمی سیاسی شخصیت دے سکے۔
امریکہ کا معاشی رتبہ تنزلی کا شکار ہونے کے باعث، امریکہ نے ڈالر کے نظام سے اپنے متکبرانہ مفادات کے حصول کے لئے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیا ہے اور یہی رویہ بذات خود امریکہ پر دوسرے ممالک کے عدم اعتماد کا سبب بنتا ہے۔ امریکہ اس وقت ڈالر کے نظام کو سیاسی رنگ دینا چاہتا ہے تا کہ اس روش سے اپنے مالی مفادات کی تکمیل کرسکے۔
ہم اسی صورت حال کو یورپی یونین میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ جب سے امریکہ کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے خارج ہونے کے بعد، یورپ بہر صورت ایران کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلق قائم رکھنے پر اصرار کررہا ہے، جس کے لئے وہ ڈالر کو چھوڑ کر ایک نئے مالیاتی نظام متعارف کرانے کے لئے کوشاں ہے۔ روس اور چین بھی تیل اور دیگر مصنوعات کی خرید و فروخت کے لئے ادائیگیوں کے ایک نئے نظام کے لئے کوشاں ہیں جس کے تحت ان کے درمیان لین دین کے لئے مزید ڈالر کی ضرورت نہيں پڑے گی۔
آزاد منڈی کی سرمایہ داری (Free-market capitalism) کی وجہ سے ہی امریکہ عالمی طاقت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اگر امریکہ کو منڈیوں سے روکا جائے، تو وہ اس روش کی “اصلاح” کے لئے پابندیوں کو ٹھونس دیتا ہے۔ یورپ کو روس کی قدرتی گیس کی برآمد، ایک کلاسیکی نمونہ ہے۔ جو گیس روس یورپ کو فروخت کرتا ہے، وہ یورپیوں کی بادوام طلب کی تکمیل کرتی ہے؛ جبکہ امریکہ اپنی مہنگی گیس فروخت کرنے کے لئے یورپ کی منڈی میں اپنے لئے جگہ بنانے کے درپے ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کا واحدہ راستہ یہ ہے کہ وہ روس پر بھی اور روس کے ساتھ لین دینے والی یورپی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگا دے؛ جبکہ یہ منڈی کی معیشت نہیں بلکہ امریکہ کی حاویت پر مبنی تحکم پسندی ہے۔ اس سے امریکہ بھی، اس کا ڈالر بھی اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کو زبردست نقصان پہنچے گا۔
دنیا بہت ہی کندرفتاری ـ لیکن فیصلہ کن انداز ـ سے عالمی زر مبادلہ کے طور پر ڈالر سے دور ہورہی ہے؛ اور وہ اس لئے کہ واشنگٹن ڈالر اور بینکاری میں اس کی فوقیت کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے بطور اسلحہ بروئے کار لا رہا ہے۔
پیوٹن نے کہا کہ بہت سے ممالک پر امریکی معاشی پابندیاں اور بطور عالمی زر مبادلہ ڈالر سے ناجائز فائدہ اٹھانا، ایک “تزویری غلطی” ہے اور “یہ وہی غلطی ہے جن سے بیمار، رنجور اور کمزور سلطنتیں دوچار ہوجایا کرتی ہیں؛ جتنا وقت گذرتا ہے زیادہ سے زیادہ ممالک امریکی پابندیوں سے جان چھڑانے کے لئے ڈالر کو اپنی معیشت سے حذف کر دیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ڈالر کا بین الاقوامی اعتبار (Value) نیز کا بینکاری نظام زیادہ سے زیاد اور مسلسل کمزور ہوتا جارہا ہے۔ یہ واشنگٹن کی طرف سے اپنے منہ سے بڑا نوالہ اٹھانے کا کلاسیکی نمونہ ہے جو آخرکار امریکہ کے اپنے معاشی زوال کا سبب بنے گا”۔
اگر تاریخ ہمیں یہی بات بتا دے کہ “ہر سلطنت (Empire) کا اپنا ایک دور ہوتا ہے” تو منہ سے بڑے سامراجی نوالے اٹھانا ایک رو بہ زوال سلطنت کے زوال کی علامت ہیں۔
پریزیڈنٹ ٹرمپ اونچی آواز چین کے ساتھ تجارت کے کارو بار میں نیز تقریبا تمام دوسرے ممالک، منجملہ یورپی ممالک اور کینیڈا کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں چلّاتے ہیں، ٹرمپ “غیرمنصفانہ” تجارت سے نالاں ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں اب وہ بڑی لاٹھی موجود نہیں ہے جس کا سرچشمہ امریکہ کی ذاتی طاقت ہو۔ ڈالر ہی مزید شہر کی واحد نمائش نہیں ہے۔
روس ڈالر کو اپنی معیشت سے نکال باہر کررہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک دوسرے ممالک کے ساتھ دو طرفہ زرمبادلہ کے ذریعے تجارت کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ یہی بات چین اور دوسرے ممالک کے ہاں بھی صادق ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ڈالر اپنی بین الاقوامی طاقت کھو رہا ہے اور ساتھ ہی امریکی معیشت بھی اپنی سابقہ پوزیشن کو کھو رہی ہے۔ امریکی امپائر رو بہ زوال ہے اور صرف اور اس سلسلے میں صرف امریکہ پر ہی لعنت ملامت کرنے کا جواز بنتا ہے جس نے اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور آج اس صورت حال سے دوچار ہوچکا ہے۔
منحوس راہ حل یہ ہے کہ واشنگٹن اپنی باقی ماندہ لاٹھی کو بھی بروئے کار لائے اور وہ ہے فوجی طاقت۔ اسی بنا پر دنیا کو خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر امریکہ اس روش کو ترک نہ کرے تو ایسا لگے گا کہ وہ دنیا کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔
بہرصورت یہ ساری صورت حال بالکل مختلف بھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ ریاست ہائے متحدہ یک قطبی (Unipolar) طاقت کے عنوان سے اپنی طاقت استوار کرنے کی کوششیں ترک کردے اور کثیر قطبی دنیا کے اصول کے مطابق دوسروں کو بھی شراکت کا امکان فراہم کرے۔
ٹرمپ کی کوشش ہے کہ قومیت کی بنیاد پر عالمگیر شدہ دنیا کو امریکی سرمایہ داری (American Capitalism) کے واسطے سے اپنے ساتھ ملا دیں؛ لیکن یہ کوشش کسی صورت میں بھی کامیاب ہونے والی نہیں ہے، اور امریکی حکومت اس ہدف تک پہنچنے کے لئے جس قدر زیادہ کوشش کرے گی امریکی ڈالر اور امریکی سلطنت کو مزید زوال پذیری کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس صورت میں یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ امریکہ کھوئی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ کی بازیابی کے لئے ایک بار پھر عسکریت پسندی کا سہارا لے۔ [اور امریکہ کی بدقسمتی دیکھئے کہ وہ شاید مزید کسی ملک پر چڑھائی سے بھی عاجز ہوچکا ہے اور ایک بار جنگ میں الجھنے کی وجہ سے اس کی تنزلی اور زوال کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے]۔
۔۔۔۔۔۔
اداریہ از اسٹراٹجک کلچر (strategic-culture)
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲